واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

حضرت خواجہ علا ؤالدین عطار

رحمتہ  اللہ  علیہ

حضرت علاؤالدین   رحمتہ  اللہ  علیہ  خواجۂ خواجگان حضرت بہاؤالدین نقشبند بخاری   رحمتہ  اللہ  علیہ  کے خلیفہ  اول اور نائب مطلق تھے۔ آپ کا اسم مبارک محمد بن محمد بخاری  رحمتہ  اللہ  علیہ   تھا ۔جب آپ کے والد ماجد نے وفات پائی تو ااپ نے ان کے ترکہ سے کوئی چیز قبول نہ کی اور حالت تجرید میں بخارا کے ایک مدرسے میں داخل ہو گئے۔شروع ہی سے آپ کی طبیعت فقر کی طرف مائل تھی۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

                ایک دن خواجہ نقشبند   رحمتہ  اللہ  علیہ   اس مدرسے میں تشریف لائےجہاں آپ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔آپ نے حضرت خواجہ نقشبند  رحمتہ  اللہ  علیہ   کی نورانی شکل دیکھی تو اٹھ  کر آپ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے۔حضرت خواجہ نقشبند  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے آپ میں بزرگی کے آثار دیکھ لیے تھے اسی لیےلڑکپن ہی سے آپ پر حضرت شاہ نقشبند کی خصوصی نظر عنایت رہی۔

           حضرت خواجہ نقشبند  رحمتہ  اللہ  علیہ   آپ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ تھوڑے ہی عرصے بعد اپنی صاھب زادی کا نکاح آپ سے کر دیا۔حضرت خواجہ نقشبند   رحمتہ  اللہ  علیہ   کی آپ پر خاص نطر تھی مجالس میں آپ کو اپنے پاس بٹھاتے اور بار بار آپ کی طرف متوجہ ہوتے۔بعض لوگوں نے حضرت  خواجہ  رحمتہ  اللہ  علیہ   سے اس کا سبب دریافت کیا  تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں  اس کو اس  لئے اپنے پاس بٹھاتا ہوں تا کہ ان کو بھیڑیا نہ کھا جائے۔ ان کے نفس کا بھیڑیا گھات لگا ئے بیٹھا ہے اس لے ہر لحظہ ان کا حا ل دریافت کرتا رہتا ہوں۔ چنانچہ حضرت خواجہ نقشبند  رحمتہ  اللہ  علیہ   کی خاص توجہ سے آپ بہت جلد درجہ کمال پر پہنچ گئے۔

           آپ حضرت شیخ   رحمتہ  اللہ  علیہ  کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اتباع سنت اور عمل بہ حزیمت کا خصوصی اہتمام رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نامور علماء کرام نے بھی آپ کی طرف رجوع کیا۔ علوم عقلیہ و نقلیہ کے ماہر اور مختلف علوم و فنون میں مثالی درسی کتب کے مصنف حضرت علامہ شریف جرجانی رحمتہ اللہ علیہ آپ کے متعلق فرماتے ہیں۔ ”و اللہ ما عرفت الحق سبحانہ وتعالیٰ کما ینبغی مالم اصل الیٰ خدمۃ العطار البخاری“ کہ خدا کی قسم میں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو جیسا چاہیے نہیں پہچانا تھا جب تک کہ میں حضرت علاؤالدین عطار رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچا۔

          بروز بدھ ۲۰ رجب المرجب ۸۰۴ ہجری کو اس فانی جہاں سے کوچ فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مزار مبارک موضع جفانیاں ماوراء النہر کے علاقہ میں ہے۔